سرکاری ملازمتوں پر پابندی ،گلگت بلتستان کے بے روزگاروں پر ڈرون حملہ

ممتاز حسین گوہر 

صوبائی حکومت گلگت  بلتستان نے تمام نئے تقریوں پر پابندی عائد کر دی ہے جبکہ صوبائی وزراء کے لئے گاڑیوں کی خریداری پر بھی پابندی کا اطلاق ہوگا ۔ گلگت  بلتستان سیکریٹریٹ سے جاری آفس آرڈر کے تحت وفاقی وزراء مالیات کے احکامات کے تحت تقرریوں پر پبندی عائد کر دی گئی ہے جبکہ گلگت  بلتستان کے صوبائی وزراء کے لئے گاڑیوں کی خریداری کی درخواست کو بھی وفاقی وزارت مالیات نے مسترد کر دیا ہے ۔ فنانس ڈیپارٹمنٹ کے احکامات کے تحت لیٹر نمبر7(2)Exp.IV/2011مورخہ7اگست 2011کے تحت سال 2011-12کے لئے معاشی صورتحال کو ملحوظ خاطر رکھ کر اس مالی سال کے لئے تمام نئے تقرریوں پر پابندی عائد کر دی گئی ہے جبکہ تمام محکموں میں گاڑیوں کی خریداری ، افسران کے سفری اخراجات، اسٹیشنری، مرمت، تذ ئین و آرائش کے کام کرانے پر بھی 17اگست 2011سے پابندی عائد کر دی گئی ہے جبکہ افسران کے دفاتر میں مختلف میگزین اور دیگر رسالے و جرائد کی خریداری پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے ۔ جبکہ اعلیٰ افسران کے لئے محض 1روزنامے کی اجازت ہو گی ۔ سرکاری دفاتر میں ایئر کنڈیشن کے ۱ستعما ل پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے ۔ ملکی مخدوش صورتحال کی وجہ سے فنانس ڈویژن کی طرف سے جاری ان ہدایات کے تحت تمام پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسرز کو بتایا گیا ہے کہ وہ یوٹیلٹی بلات پر کنٹرول رکھنے کے لئے سخت اقدامات اٹھائیں ۔ جبکہ تمام سرکاری دفاتر میں استعمال ہونے والے کاغذوں کے دونوں اطراف استعمال کریں گے جبکہ تمام سرکاری ضیافت اورعشایئے پر بھی مکمل پابندی ہو گی ۔ گلگت  بلتستان سیکریٹریٹ کی طرف سے 9ستمبر011کو جاری آرڈرمیں ان احکامات پر فوری عمل در آمد کے لئے تمام محکموں کو ہدایات جاری کر دئے گئے ہیں ۔

   دوسری طرف ترقیاتی بجٹ میں0فیصد کٹوتی کا فیصلہ کر لیا گیا ہی۔ چیف سیکریٹری نے تمام سرکاری محکموں کو ہدایت کر دی ہے کہ اب تک جن سرکاری محکموں کیلئے ٹسٹ انٹرویو ہو چکے ہیں ان کی تقرری کے سلسلے میں میرٹ اور اہلیت کے ضابطہ کی سختی سے پابندی کریں۔ سیاسی مداخلت کوکسی صورت خاطر نہ لائیں اور مستحق افراد کو آگے لانے کی کوشش کریں اور اس صورت میں انٹرویو کے بجائے تعلیم کو اہمیت دیں جو کہ سارے ملک میں رائج ہی۔

حکومت نے تمام نئی ملازمتوں پر پابندی بجٹ میں 20فیصد کٹوتی ودیگر تمام اقدامات سندھ میں آنے والے سیلاب کی وجہ سے کیا ہی۔ گلگت بلتستان سمیت ملک کے مختلف سیاسی رہنمائوں نے حکومت کی طرف سے تمام نئی ملازمتوں پر پابندی اور بجٹ کٹوتی پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے ملک میں بے روزگاری کی شرح میں مذید خطرناک حد تک اضافہ ہوگا۔ ملازمتوں پر پابندی کی وجہ سے نئی نسل مختلف مسائل کا شکار ہو گی جس کا اثر براہ راست ملک کی مجموعی ترقی اور خوشحالی پر پڑے گا۔ اس سے ملک میں فرسٹریشن اور مایوسی کے فضا میں اضافہ ہوگا۔ موجودہ حالات میں حکومت کا فیصلہ کسی بھی طور پر دانشمندانہ نہیں ہی۔ کیونکہ سندھ میں آنے والے سیلاب کیلئے پورے ملک کے نوجوانوں کو بے روزگار کرنا اور ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی سے ملک کی مجموعی ترقی بڑھے کے بجائے مذید تنزلی کی طرف جائے گی۔ حکومت کا کام ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی آفت یا ہنگامی صورتحال میں عالمی برادری سے مدد کی اپیل کرے اور اس کے لئے حکومتی سطح پر بھرپور مہم چلا کر عالمی برادری کی توجہ اپنی طرف مبذول کروائی۔ کیونکہ بہترین سفارت کاری سے کوئی بھی ملک اپنے تمام مسائل کا حل نکال سکتی ہی۔ مگر حکومت پاکستان کا عالمی برادری کو اپنی طرف متوجہ کرانے کے بجائے ملک کے نوجوانوں پر بیروزگاری کا ڈرون حملہ کسی بھی طرح سے مناسب فیصلہ نہیں ہی۔ گلگت بلتستان میں رواں مالی سال 2011-12میں سرکاری ملازمتوں پر پابندی ختم ہونے کے بعد تین ہزار کے قریب آسامیاں پیدا کی گئیں جن میں سے چند محکموں میں بھرتیاں ہوگئی تھی جبکہ دیگر آسامیوں پر بھرتیوں کا عمل جاری تھا۔ سرکاری ملازمتوں پر سے پابندی ختم ہونے کے بعد گلگت بلتستان کے بیروزگار نوجوانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی۔ بیروزگاری کی شرح کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا تھا کہ یہاں مشتہر ہونے والی ہر سرکاری پوسٹ کیلئے سینکڑوں کی تعداد میں درخواستیں موصول ہوئیں۔ یہ بات بھی بالکل واضح ہے کہ ملک کے دیگر شہروں اور علاقوں کے مقابلے میں گلگت بلتستان میں شرح خواندگی بہت زیادہ ہے اور حصول علم کی طرف رغبت کا شرح بھی حوصلہ افزاء ہی۔ اس کے مقابلے میں گلگت بلتستان میں گلگت بلتستان میں انڈسٹریز اور صنعتی پیداورا نہ ہونے اور ملکی و بیرونی سرمایہ کاری نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے پڑھے لکھے نوجوانوں کیلئے ملازمت کے مواقعے انتہائی محدود ہیں جس کی وجہ سے یہاں سے پڑھے لکھے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد حصول روزگار کیلئے دیگر شہروں کا رخ کر لیتے ہیں یا پھر کوئی معقول نوکری نہ ملنے کی وجہ سے بغلوں میں دبائے پھرتے رہتے ہیں جبکہ جی بی  پی ڈبلیو ڈی سمیت دیگر مقامی اداروں میں اندرون خانہ رشوت اور سفارش کی بنیاد پر بھرتیاں ہوتی رہتی ہیں جبکہ بے روزگار ہمیشہ کیلئے ہی بے روزگار رہ جاتے ہیں گلگت بلتستان میں حالیہ بھرتیوں پر سے پابندی اٹھنے پر ان تمام بے روزگاروں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی۔ مگر بھرتیوں کے آغاز کے ساتھ ہی ان پر پابندی سے ایک بار پھر خوشی مایوسی میں تبدیل ہوگئی ہی۔

وفاقی حکومت کو چاہیے تھا کہ گلگت بلتستان کی پسماندگینئے ملنے والے سیاسی سیٹ اپ کی مضبوطی،علاقے میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے خاتمے اور یہاں کے نوجوانوں اور عوام میں بڑھتی ہوئی مایوسی کو دیکھ کر اس علاقے کو اس پابندی سے مستثنیٰ قرار دیتی،مگر وفاقی حکمرانوں نے ایک بار پھر وہی کچھ کر دکھایا جس کی امید کی جارہی تھی،صدر زرداری کے حالیہ دورہ تاجکستان کے دوران چترال تاجکستان روڈ پر دستخط اور اس اہم شاہراہ کو گلگت بلتستان سے چھین کر خیبر پختونخواہ کے جھولی میں پھینکنے کے چند روز بعد ہی وفاقی حکومت کی طرف سے ایک بار پھر گلگت بلتستان میں سرکاری نوکریوں پر پابندی اور بجٹ میں 20فیصد کٹوتی اس علاقے کے ساتھ سنگین زیادتی کے مترادف ہی۔ گلگت بلتستان میں سرکاری نوکریوں سے پابندیاں اٹھائے ابھی محض 4ماہ بھی نہیں گزرے تھے جبکہ منظور شدہ تین ہزار کے قریب آسامیوں پر ابھی تقرریاں ہونا باقی تھی جن میں محکمہ پولیس اور چند محکموں میں تقرریاں عمل میں آچکی تھی لیکن جو تقرریاں عمل میں آچکی ہیں یہ بھی انتہائی کم تعداد میں ہیں ایسے حالات میں گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ وفاقی حکومت کے فیصلے کو من و عن تسلیم کرنے کے بجائے اس فیصلے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اپنے موقف کو بھرپور انداز میں پیش کر دی، کیونکہ اس وقت گلگت بلتستان میں ملازمت کے مواقعے ملک کے دیگر حصوں کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہیں بیرونی و ملکی سرمایہ کاروں کو ملک میں راغب کرنے کیلئے صوبائی حکومت نے کوئی اقدامات ہی نہیں کئے ہیں جبکہ سمال انڈسٹریز و دیگر صنعتی ذرائع بھی انتہائی محدود ہیں صوبائی حکومت کو چاہیے کہ وہ آج ہونے ولاے صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں نہ صرف قرار داد پاس کردے بلکہ وفاقی حکومت کو یہ باور کرائے کہ گلگت بلتستان میں بے روزگاری کی شرح پہلے سے ہی ایک خطرناک حد کو چھو رہی ہے ایسے میں یہاں سرکاری ملازمتوں پر پابندی سے مذید مسائل پیدا ہونگی۔ اس کے ساتھ ساتھ قانون ساز اسمبلی کے ممبران کو چاہیے کہ وہ غذر تاجکستان روڈ کے حوالے سے بھی حکومت سے بھرپور احتجاج کریں اور حکومت کو فیصلے پر نظرثانی کرانے پر مجبور کریں غذر تاجکستان روڈ گلگت بلتستان کی معاشی ترقی کیلئے مستقبل میں ایک کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے اور اس سے یہاں پر جاری بے روزگاری کی شرح میں قابو پانے میں مدد مل سکتی ہی۔ گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت اگر سرکاری ملازمتوں پر پابندی کو مکمل طور پر ختم نہیں کراسکتی  تو کم از کم جن تین ہزار کے قریب آسامیاں پیدا کی گئی ہیں ان پر فوری بھرتیوں کیلئے کوششیں کرنی چاہیی۔

Leave a comment